پتھروں پر نقش ابھرا کیوں نہیں
دست بے تیشہ نے سوچا کیوں نہیں
جان لیوا ہیں ادھورے واقعات
جو بھی ہونا ہے وہ ہوتا کیوں نہیں
پتھروں کے عکس پڑ کر رہ گئے
شیشۂ احساس ٹوٹا کیوں نہیں
بہہ رہا تھا جب لہو آواز کا
یہ گلوئے خشک بولا کیوں نہیں
موت بھی کیا سایۂ دیوار تھی
اس کا کوچہ ہم سے چھوٹا کیوں نہیں
آئنہ خانہ تھا میں پھر کوئی عکس
اس طرف سے ہو کے گزرا کیوں نہیں
لوگ نا خوش ہیں کہ اپنے حال پر
مسکرا دیتا ہو ہوں رونا کیوں نہیں

غزل
پتھروں پر نقش ابھرا کیوں نہیں
تصور زیدی