پتھر سے نہ مارو مجھے دیوانہ سمجھ کر
آیا ہوں ادھر کوچۂ جانانہ سمجھ کر
کہتے ہیں یہ رونے سے لگی دل کی بجھے گی
سمجھاتے ہیں اپنا مجھے پروانہ سمجھ کر
میں وہ ہوں کہ سیری مجھے ہوتی نہیں مے سے
دینا مرے ساقی مجھے پیمانہ سمجھ کر
نخوت سے جو اک بات نہ سنتے تھے ہماری
خود چھیڑ رہے ہیں ہمیں دیوانہ سمجھ کر
ہم ان کے ہیں دل ان کا ہے جاں ان کی ہے لیکن
پھر منہ کو چھپاتے ہیں وہ بیگانہ سمجھ کر
رکھا نہ کہیں کا ہمیں بربادئ دل نے
ارمان ٹھہرتے نہیں ویرانہ سمجھ کر
دیکھ آپ سے باہر نہ ہو منصور کی صورت
کرنا ہے تو کر نعرۂ مستانہ سمجھ کر
ہم اور ہی کچھ ڈھونڈتے پھرتے ہیں بتوں میں
بت خانے میں جاتے نہیں بت خانہ سمجھ کر
خوباں سے پٹے یا نہ پٹے وصل کا سودا
دل پہلے ہی لے لیتے ہیں بیعانہ سمجھ کر
ساقی کی جو آنکھوں کو ہوئی بزم میں گردش
ہم لوٹ گئے گردش پیمانہ سمجھ کر
کہہ جاتے حفیظؔ ان کو ہو تم جوش میں کیا کچھ
وہ طرح دیے جاتے ہیں دیوانہ سمجھ کر
غزل
پتھر سے نہ مارو مجھے دیوانہ سمجھ کر
حفیظ جونپوری