EN हिंदी
پتھر کی نیند سوتی ہے بستی جگائیے | شیح شیری
patthar ki nind soti hai basti jagaiye

غزل

پتھر کی نیند سوتی ہے بستی جگائیے

صمد انصاری

;

پتھر کی نیند سوتی ہے بستی جگائیے
آب حیات سا کوئی اعجاز لائیے

جل جائیے مقام پہ اپنے مثال شمع
اپنے بدن کی لو سے نہ گھر کو جلائیے

اک نہر کاٹیے کبھی سینے سے چاند کے
دامان شب میں نور کا دھارا بہائیے

آ تو گئے ہیں آپ خریدار کی طرح
کچھ تن کو خرچ کیجیئے جاں کو بھنائیے

جن کے دھوئیں سے پھیلتی ہے عافیت کی لو
ایسے بھی کچھ چراغ سر شب جلائیے

آباد کیجیئے اسی گھر میں جنوں کو آپ
اس گھر میں کیا نہیں ہے جو صحرا کو جائیے

پھوٹا ہے جس سے رات کے سینے میں ماہتاب
اک بیج ایسا ظلمت دل میں اگائیے

چاہت میں ان کی بیت گئی زندگی صمدؔ
خود کو بھی پیار کیجیئے خود کو بھی چاہئے