پتا چلا کہ مری زندگی میں لکھا تھا
وہ جس کا نام کبھی ڈائری میں لکھا تھا
وہ کس قبیلے سے ہے کون سے گھرانے سے
سب اس کے لہجے کی شائستگی میں لکھا تھا
نظر میں آئے بہت سے سجے بنے چہرے
مگر جو حسن تری سادگی میں لکھا تھا
وہ مجھ غریب کی حالت پہ اور کیا کہتا
تمام زہر تو اس کی ہنسی میں لکھا تھا
گئے دنوں کی کہانی ہے جب رئیسوں کا
وقار چال کی آہستگی میں لکھا تھا
فرازؔ ڈھونڈ رہے ہو وفاؤں کی خوشبو
یہ ذائقہ کسی گزری صدی میں لکھا تھا
غزل
پتا چلا کہ مری زندگی میں لکھا تھا
مجاہد فراز