پس نگاہ کوئی لو بھڑکتی رہتی ہے
یہ رات میرے بدن پر سرکتی رہتی ہے
میں آپ اپنے اندھیروں میں بیٹھ جاتا ہوں
پھر اس کے بعد کوئی شے چمکتی رہتی ہے
ندی نے پاؤں چھوئے تھے کسی کے اس کے بعد
یہ موج تند فقط سر پٹکتی رہتی ہے
میں اپنے پیکر خاکی میں ہوں مگر مری روح
کہاں کہاں مری خاطر بھٹکتی رہتی ہے
درخت دل پہ ہوئی تھی کبھی وہ بارش لمس
یہ شاخ زخم ہر اک پل مہکتی رہتی ہے

غزل
پس نگاہ کوئی لو بھڑکتی رہتی ہے
سالم سلیم