پس غبار مدد مانگتے ہیں پانی سے
یہ لوگ تنگ ہیں مٹی کی حکمرانی سے
یہ ہاتھ سوکھ کے جھڑنے کو ہو گئے لیکن
میں دست کش نہ ہوا تیری مہربانی سے
پھر اس کے بعد پھلوں میں مٹھاس آئی نہیں
شجر نے کام لیا تھا غلط بیانی سے
کسی جزیرے پہ شاید کھلا یہ باغ کوئی
مہک گلاب کی آتی ہے بہتے پانی سے
میں تیرے وصل کا لمحہ بچا سکوں شاید
مرا تعلق خاطر ہے رائیگانی سے
نواح شہر میں پھیلی ہے موت کی خوشبو
مگر یہ لوگ کہ لگتے ہیں جاودانی سے
ترے وصال کے موسم میں استوار ہوا
کوئی عجب سا تعلق جہان فانی سے
تو مل گیا ہے تو اچھا ہوا وگرنہ دوست
کسے غرض تھی محبت میں کامرانی سے
پہنچ چکے ہیں محبت میں اس جگہ ہم لوگ
جہاں یقیں نہیں آتا یقیں دہانی سے
غزل
پس غبار مدد مانگتے ہیں پانی سے
عباس تابش