EN हिंदी
پرواز کا تھا شوق مجھے آسمان تک | شیح شیری
parwaz ka tha shauq mujhe aasman tak

غزل

پرواز کا تھا شوق مجھے آسمان تک

توفیق ساگر

;

پرواز کا تھا شوق مجھے آسمان تک
بجلی گری تو جل گئے کھیتوں کے دھان تک

کچے گھروں کے گاؤں میں برسات رہ گئی
پکی سڑک بنی بھی تو پکے مکان تک

کیسے بتاؤں تم کو اولمپک میں کیا ہوا
میری تو اپنی دوڑ ہے گھر سے دکان تک

پروردگار میرے گناہوں کو بخش دے
مجھ کو سنائی دیتی نہیں اب اذان تک

بچے نے کوئلہ جو چرایا سزا ملی
ان کی سناؤ بیچ گئے جو کھدان تک

آیا وہ مسکرا کے مرا زخم لے گیا
اک شخص جس پہ میں نے دیا تھا نہ دھیان تک

فصلوں کا خواب بھوک کی آنکھوں میں رہ گیا
گاؤں کے کھیت کھا گئے لیکن کسان تک

اک لڑکی اپنے اپنے آپ میں گھٹ گھٹ کے مر گئی
گھر تک خبر گئی نہ کبھی خاندان تک

اس بار بال و پر ہی نہ کاٹے گئے فقط
قینچی کتر گئی ہے مرا آسمان تک

گھر گھر میں جھانکتی ہے یہاں تیسری نظر
رہتی ہے کوئی بات کہاں درمیان تک

ساگرؔ یہ فیصلہ بھی کوئی فیصلہ ہوا
جس میں لیا گیا نہ ہو میرا بیان تک