پرندے سہمے سہمے اڑ رہے ہیں
برابر میں فرشتے اڑ رہے ہیں
خوشی سے کب یہ تنکے اڑ رہے ہیں
ہوا کے ڈر کے مارے اڑ رہے ہیں
کہیں کوئی کماں تانے ہوئے ہے
کبوتر آڑے ترچھے اڑ رہے ہیں
تمہارا خط ہوا میں اڑ رہا ہے
تعاقب میں لفافے اڑ رہے ہیں
بہت کہتی رہی آندھی سے چڑیا
کہ پہلی بار بچے اڑ رہے ہیں
شجر کے سبز پتوں کی ہوا سے
فضا میں خشک پتے اڑ رہے ہیں
غزل
پرندے سہمے سہمے اڑ رہے ہیں
فہمی بدایونی