EN हिंदी
پرندے کھیت میں اب تک پڑاؤ ڈالے ہیں | شیح شیری
parinde khet mein ab tak paDaw Dale hain

غزل

پرندے کھیت میں اب تک پڑاؤ ڈالے ہیں

فاروق انجم

;

پرندے کھیت میں اب تک پڑاؤ ڈالے ہیں
شکاری آج تماشہ دکھانے والے ہیں

ہوائیں تیز ہیں آندھی نے پر نکالے ہیں
بہت اداس پتنگیں اڑانے والے ہیں

کمند پھینک نہ دینا زمیں کی وسعت پر
نئے جزیرے سمندر نے پھر اچھالے ہیں

چلو کے دیکھ لیں غالبؔ کے گھر کی دیواریں
نئی رتوں نے بیاباں میں ڈیرے ڈالے ہیں

گلی گلی میں چمکتی ہے درد کی خوشبو
ہمارے زخم مہکتے ہوئے اجالے ہیں

اب اپنے آپ سے ملنے کی جستجو کیا ہو
تمہارے شہر کے سب آئنے تو کالے ہیں

جو لوگ واقعی منصف مزاج ہیں انجمؔ
سنا ہے آج وہ چہرے بدلنے والے ہیں