پرندے آزمائے جا رہے تھے
پروں سے گھر بنائے جا رہے تھے
کسی صحرا سے آتی تھیں صدائیں
کہیں پیڑوں کے سائے جا رہے تھے
گھروں سے لوگ ہجرت کر رہے تھے
چراغوں کو بجھائے جا رہے تھے
پرانے پیڑ کٹتے جا رہے تھے
نئے پودے لگائے جا رہے تھے
کہیں مابعد ہم نے آنکھ کھولی
ہمیں سپنے دکھائے جا رہے تھے
محبت نا مکمل رہ گئی تھی
پرانے خط جلائے جا رہے تھے
ادھر سورج سروں پر آ رہا تھا
ادھر جسموں سے سائے جا رہے تھے
عجب وہ سانحہ تھا چھوڑ کر جب
سبھی اپنے پرائے جا رہے تھے

غزل
پرندے آزمائے جا رہے تھے
توصیف تابش