پری سفر میں رمق تک نہیں گئی ہوگی
مجھے پتہ ہے دھنک تک نہیں گئی ہوگی
یہ آسمان جو معمول کے مطابق ہے
زمیں کی چیخ فلک تک نہیں گئی ہوگی
نظر میں آتی ہوئی تیرگی خلاؤں بیچ
یہ روشنی بھی چمک تک نہیں گئی ہوگی
اسے خبر ہے طبیعت ہی میری ایسی ہے
مجھے یقیں ہے وہ شک تک نہیں گئی ہوگی
یہ لفظ یوں ہی پگھلتے رہیں گے کاغذ پر
یہ آگ شہر خنک تک نہیں گئی ہوگی
پھر آسمان کا منظر جلا ہوا دیکھا
کسی کی آنکھ پرکھ تک نہیں گئی ہوگی
وہ پھر خموش نگاہیں لیے ہوئے باسطؔ
مری کسی بھی جھلک تک نہیں گئی ہوگی
غزل
پری سفر میں رمق تک نہیں گئی ہوگی
وصاف باسط