پری کے آنے کے امکان بنتے جاتے ہیں
یہ دشت سارے گلستان بنتے جاتے ہیں
عجب ہوس ہے محلے میں تخت جیتنے کی
یہ لوگ ہیں کہ سلیمان بنتے جاتے ہیں
میں ان کو دیکھ کے چاہوں کے وہ گلے لگ جائیں
وہ مجھ کو دیکھ کے انجان بنتے جاتے ہیں
وہ جتنے سوچ کے مشکل سوال کرتا ہے
جواب اتنے ہی آسان بنتے جاتے ہیں
انہیں میں شعر کی صورت کبھی اگل دوں گا
جو دل میں درد کے طوفان بنتے جاتے ہیں
عجیب کوزہ گری سے دماغ جڑ گیا ہے
گلاب سوچ لوں گلدان بنتے جاتے ہیں
کسی فقیر کے حجرے میں بیٹھنے کے بعد
جو آدمی ہیں وہ انسان بنتے جاتے ہیں

غزل
پری کے آنے کے امکان بنتے جاتے ہیں
اسامہ امیر