EN हिंदी
پریشاں کرنے والوں کو پریشاں کون دیکھے گا | شیح شیری
pareshan karne walon ko pareshan kaun dekhega

غزل

پریشاں کرنے والوں کو پریشاں کون دیکھے گا

رحمت الٰہی برق اعظمی

;

پریشاں کرنے والوں کو پریشاں کون دیکھے گا
ہمارے بعد یہ رنگ گلستاں کون دیکھے گا

بجز میرے یہ دلچسپی کا ساماں کون دیکھے گا
جلا کر دل کے داغوں کو چراغاں کون دیکھے گا

کسے گلشن سے اتنا عشق ہے میری طرح گلچیں
قفس میں رکھ کے تصویر گلستاں کون دیکھے گا

اسے رنگیں اسے صد چاک ہونا چاہئے ورنہ
ترا دامن مرا چاک گریباں کون دیکھے گا

بجائے ساغر مے تیرے میخانے میں اے ساقی
چلیں جب بوتلیں ہر دم خمستاں کون دیکھے گا

چمن خود باغباں پامال کرتا ہے تو حیرت کیا
چمن تو اس نے دیکھا ہے بیاباں کون دیکھے گا

حکیم وقت ہوں میں ہی اگر گلشن سے اٹھ جاؤں
تو پھر اے باغباں نبض بہاراں کون دیکھے گا

بچا کر اس کو رکھا ہے کلیجے میں کہ پھر تجھ کو
جو چشم آبلہ پھوٹی پشیماں کون دیکھے گا

دعائیں کیوں نہ دوں ہر دم نگاہ ناز قاتل کو
جو یہ نشتر نہ ہو سوئے رگ جاں کون دیکھے گا

غنیمت یہ بھی ہے اس دور میں پھر ورنہ اے ہمدم
جناب برقؔ صاحب سا سخنداں کون دیکھے گا