پردے مری نگاہ کے بھی درمیاں نہ تھے
کیا کہیے ان کے جلوے کہاں تھے کہاں نہ تھے
جس راستے سے لے گئی تھی مجھ کو بے خودی
اس راہ میں کسی کے قدم کے نشاں نہ تھے
راز آشنا ہے میری نظر یا پھر آئنہ
ورنہ وہ اپنے حسن کے خود رازداں نہ تھے
کچھ بے صدا سے لفظ نظر کہہ گئی ضرور
مانا لب خموش رہین بیاں نہ تھے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی مہرباں نہ تھے
اشرفؔ فریب زیست ہے کب امتحاں سے کم
اس کے سوا تو اور یہاں امتحاں نہ تھے
غزل
پردے مری نگاہ کے بھی درمیاں نہ تھے
اشرف رفیع