EN हिंदी
پردے میں لاکھ پھر بھی نمودار کون ہے | شیح شیری
parde mein lakh phir bhi numudar kaun hai

غزل

پردے میں لاکھ پھر بھی نمودار کون ہے

امجد اسلام امجد

;

پردے میں لاکھ پھر بھی نمودار کون ہے
ہے جس کے دم سے گرمئ بازار کون ہے

وہ سامنے ہے پھر بھی دکھائی نہ دے سکے
میرے اور اس کے بیچ یہ دیوار کون ہے

باغ وفا میں ہو نہیں سکتا یہ فیصلہ
صیاد یاں پہ کون گرفتار کون ہے

مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند
ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے

کچھ بھی نہیں ہے پاس پہ رہتا ہے پھر بھی خوش
سب کچھ ہے جس کے پاس وہ بیزار کون ہے

یوں تو دکھائی دیتے ہیں اسرار ہر طرف
کھلتا نہیں کہ صاحب اسرار کون ہے

امجدؔ الگ سی آپ نے کھولی ہے جو دکاں
جنس ہنر کا یاں یہ خریدار کون ہے