پردے میں اس بدن کے چھپیں راز کس طرح
خوشبو نہ ہوگی پھول کی غماز کس طرح
طرز کلام ان کا ہوا طرز خاص و عام
بدلیں گے اب وہ بات کا انداز کس طرح
بدلا جو اس کی آنکھ کا انداز تو کھلا
کرتے ہیں رنگ پھول سے پرواز کس طرح
آنکھوں میں کیسے تن گئی دیوار بے حسی
سینوں میں گھٹ کے رہ گئی آواز کس طرح
وہ حق پرست کیسے ہوئے مصلحت پرست
نغموں سے بے لباس ہوئے ساز کس طرح
آنکھوں میں موم ڈال کے بیٹھیں گے کب تلک
آئینوں سے چھپائیں گے یہ راز کس طرح
اس کی نظر میں عکس تعلق کہیں نہیں
امجدؔ حدیث شوق ہو آغاز کس طرح
غزل
پردے میں اس بدن کے چھپیں راز کس طرح
امجد اسلام امجد