EN हिंदी
پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے | شیح شیری
parbaton ke peDon par sham ka basera hai

غزل

پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے

ساحر لدھیانوی

;

پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے
سرمئی اجالا ہے چمپئی اندھیرا ہے

دونوں وقت ملتے ہیں دو دلوں کی صورت سے
آسماں نے خوش ہو کر رنگ سا بکھیرا ہے

ٹھہرے ٹھہرے پانی میں گیت سرسراتے ہیں
بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوؤں کا ڈیرا ہے

کیوں نہ جذب ہو جائیں اس حسیں نظارے میں
روشنی کا جھرمٹ ہے مستیوں کا گھیرا ہے