پربت پربت گھوم چکا ہوں صحرا صحرا چھان رہا ہوں
ہر منزل کے حق میں لیکن کافر کا ایمان رہا ہوں
تیرے در پر عمر کٹی ہے پھر بھی کیا انجان رہا ہوں
دنیا بھر کے سجدوں میں اپنے سجدے پہچان رہا ہوں
دور سنہرے گنبد چمکے لیکن گردن کون جھکائے
میں تو جنت بھی کھو کر آزاد منش انسان رہا ہوں
دیکھ مری انمول شرافت لٹ بھی گیا شرمندہ بھی ہوں
جیت بھی لی اخلاص کی بازی ہار بھی اپنی مان رہا ہوں
غزل
پربت پربت گھوم چکا ہوں صحرا صحرا چھان رہا ہوں
قتیل شفائی