پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے
وہ شخص صاحب فن بھی ہے کامیاب بھی ہے
جو روپ آئی کو اچھا لگے وہ اپنا لیں
ہماری شخصیت کانٹا بھی ہے گلاب بھی ہے
ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں
ہمارے خون میں گنگا بھی ہے چناب بھی ہے
ہمارا دور اندھیروں کا دور ہے لیکن
ہمارے دور کی مٹھی میں آفتاب بھی ہے
کسی غریب کی روٹی پہ اپنا نام نہ لکھ
کسی غریب کی روٹی میں انقلاب بھی ہے
مرا سوال کوئی عام سا سوال نہیں
مرا سوال تری بات کا جواب بھی ہے
اسی زمین پر ہیں آخری قدم اپنے
اسی زمین میں بویا ہوا شباب بھی ہے

غزل
پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے
کنول ضیائی