پنچھیوں کے روبرو کیا ذکر ناداری کروں
پنکھ ٹوٹے ہی سہی اڑنے کی تیاری کروں
چھوڑ جاؤں اپنے پیچھے عالم حیرت تمام
موت کے پہلو میں چھپ کر شعبدہ کاری کروں
ناچتی ہے جنبش انگشت پر وہ فاحشہ
زندگی کہہ کر جسے خود سے ریاکاری کروں
سبز پودوں کی طرف بڑھنے لگی سرکش ہوا
اس کے کپڑے نوچ لوں تھوڑی گناہ گاری کروں
ننھی منی کونپلوں کو رنگ و نکہت چاہئے
کچھ ہوا کا خوف کچھ موسم کی دل داری کروں
گنگناتے شوخ پنچھی لہلہاتی کھیتیاں
نت نئے خوابوں سے نم آنکھوں میں گلکاری کروں
مرثیہ اپنا سناؤں شہر نا پرساں کے بیچ
پتھروں سے اور کیا امید غمخواری کروں
غزل
پنچھیوں کے روبرو کیا ذکر ناداری کروں
عبد الرحیم نشتر