پلکوں پہ تیرتے ہوئے محشر تمام شد
آنکھیں کھلیں تو خواب کے منظر تمام شد
زندہ ہے بھوک آج بھی عفریت کی طرح
تیر و تفنگ و لشکر و خنجر تمام شد
لوگو تم اپنے ظرف سے بڑھ کر دیا کرو
اس بار زخم بھر گئے نشتر تمام شد
تحریر کر رہا تھا کہانی جنوں کی میں
لیکن خیال و فکر کا محور تمام شد
خود اپنا عکس آئنوں میں ڈھونڈتے ہیں لوگ
شیشہ گروں کے شہر میں پیکر تمام شد
جب دھوپ اوڑھے بیٹھی ہو غربت قطار میں
سمجھو خودی کا آخری زیور تمام شد
ذاکرؔ رچی بسی کوئی سازش فضا میں تھی
اڑنے سے پیشتر میرا شہ پر تمام شد

غزل
پلکوں پہ تیرتے ہوئے محشر تمام شد
ذاکر خان ذاکر