EN हिंदी
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا | شیح شیری
palkon pe intizar ka mausam saja liya

غزل

پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا

اشوک ساہنی

;

پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑ کے روگ گلے سے لگا لیا

کوئی تو ایسی بات تھی ہم کچھ نہ کر سکے
سارے جہاں میں خود کو تماشہ بنا لیا

اب یہ کسے بتائیں ہمیں کیا خوشی ملی
جس دن ذرا سا بوجھ کسی کا اٹھا لیا

میں عمر بھر نہ جانے بھٹکتا کہاں کہاں
اچھا ہوا جو آپ نے اپنا بنا لیا

کتنے سکوں سے کاٹ دی پرکھوں نے زندگی
جو مل گیا نصیب سے چپ چاپ کھا لیا

احباب کو نہ دیجئے الزام دوستو
ہم نے تو دشمنوں کو بھی اپنا بنا لیا

گزرے ہیں زندگی میں بہت تجربات سے
لیکن اشوکؔ جینے کا انداز پا لیا