EN हिंदी
پلکوں کی اوٹ میں وہ چھپا لے گیا مجھے | شیح شیری
palkon ki oT mein wo chhupa le gaya mujhe

غزل

پلکوں کی اوٹ میں وہ چھپا لے گیا مجھے

کرشن بہاری نور

;

پلکوں کی اوٹ میں وہ چھپا لے گیا مجھے
یعنی نظر نظر سے بچا لے گیا مجھے

اب اس کو اپنی ہار کہوں یا کہوں میں جیت
روٹھا ہوا تھا میں وہ منا لے گیا مجھے

مدت سے ایک رات بھی اپنی نہیں ہوئی
ہر شام کوئی آیا اٹھا لے گیا مجھے

ہو واپسی اگر تو انہیں راستوں سے ہو
جن راستوں سے پیار ترا لے گیا مجھے

اک جان دار لاش سمجھئے مرا وجود
اب کیا دھرا ہے کوئی چرا لے گیا مجھے

آواگمن کی قید سے کیا چھوٹتا کبھی
بس تیرا پیار تھا جو چھڑا لے گیا مجھے

دھرتی کا یہ سفر مرا جس دن ہوا تمام
جھونکا ہوا کا آیا اڑا لے گیا مجھے

طوفاں کے بعد میں بھی بہت ٹوٹ سا گیا
دریا پھر اپنے رخ پہ بہا لے گیا مجھے

مدت کے بعد نورؔ ہنسی لب پہ آئی ہے
وہ اپنا ہم خیال بنا لے گیا مجھے