پیروں کو مرے دیدۂ تر باندھے ہوئے ہے
زنجیر کی صورت مجھے گھر باندھے ہوئے ہے
ہر چہرے میں آتا ہے نظر ایک ہی چہرا
لگتا ہے کوئی میری نظر باندھے ہوئے ہے
بچھڑیں گے تو مر جائیں گے ہم دونوں بچھڑ کر
اک ڈور میں ہم کو یہی ڈر باندھے ہوئے ہے
پرواز کی طاقت بھی نہیں باقی ہے لیکن
صیاد ابھی تک مرے پر باندھے ہوئے ہے
ہم ہیں کہ کبھی ضبط کا دامن نہیں چھوڑا
دل ہے کہ دھڑکنے پہ کمر باندھے ہوئے ہے
آنکھیں تو اسے گھر سے نکلنے نہیں دیتیں
آنسو ہے کہ سامان سفر باندھے ہوئے ہے
پھینکی نہ منورؔ نے بزرگوں کی نشانی
دستار پرانی ہے مگر باندھے ہوئے ہے
غزل
پیروں کو مرے دیدۂ تر باندھے ہوئے ہے
منور رانا