پیرو مسلک تسلیم و رضا ہوتے ہیں
ہم تیری راہ محبت میں فنا ہوتے ہیں
شرم کر شرم کہ اے جذبۂ تاثیر وفا
تیرے ہاتھوں وہ پشیمان جفا ہوتے ہیں
چھیڑتی ہے مجھے بیباکئ خواہش کیا کیا
جب کبھی ہاتھ وہ پابند حنا ہوتے ہیں
نہ اثر آہ میں کچھ ہے نہ دعا میں تاثیر
تیر ہم جتنے چلاتے ہیں خطا ہوتے ہیں
اہل دل سنتے ہیں اک ساز محبت کی نوا
ہم تری یاد میں جب نغمہ سرا ہوتے ہیں
لذت درد نہ کیوں اہل ہوس پر ہو حرام
کہ وہ کم بخت طلب گار دوا ہوتے ہیں
کشور عشق میں دنیا سے نرالا ہے رواج
کام جو بن نہ پڑیں یاں وہ روا ہوتے ہیں
ہیچ ہم سمجھے دو عالم کو تو حیرت کیا ہے
رتبے عشاق کے اس سے بھی سوا ہوتے ہیں
جسم ہوتا ہے جدا جان سے گویا حسرتؔ
آسماں ان سے چھڑاتا ہے جدا ہوتے ہیں
غزل
پیرو مسلک تسلیم و رضا ہوتے ہیں
حسرتؔ موہانی