پیکر سنگ و آہنگ جیسا تنہا کھڑا ہوں ویسے تو
اندر ٹوٹا پھوٹا ہوں سالم لگتا ہوں ویسے تو
ذہن کی آنکھوں پر دانستہ پٹی باندھے بیٹھا ہوں
سب کچھ دیکھ رہا ہوں سب کچھ سمجھ رہا ہوں ویسے تو
کل گمنامی کی گہری کھائی میں بھی گر سکتا ہوں
شہرت کی اونچی چوٹی پر آج کھڑا ہوں ویسے تو
بس اک منافقت ہے جس کی نعمت سے محروم ہوں میں
میرے یارو میں بھی بالکل تم جیسا ہوں ویسے تو
اپنے بدن کی قید سے لیکن چھٹکارا نا ممکن ہے
باہر کی ساری دیواریں توڑ چکا ہوں ویسے تو
جو تاریکی میرے اپنے اندر تھی سو قائم ہے
گلیوں گلیوں چاند ستارے بانٹ رہا ہوں ویسے تو
غزل
پیکر سنگ و آہنگ جیسا تنہا کھڑا ہوں ویسے تو
محبوب راہی