EN हिंदी
پیکر عقل ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں | شیح شیری
paikar-e-aql tere hosh Thikane lag jaen

غزل

پیکر عقل ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں

فرحت احساس

;

پیکر عقل ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
تیرے پیچھے بھی جو ہم جیسے دوانے لگ جائیں

اس کا منصوبہ یہ لگتا ہے گلی میں اس کی
ہم یوں ہی خاک اڑانے میں ٹھکانے لگ جائیں

سوچ کس کام کی رہ جائے گی تیری یہ بہار
اپنے اندر ہی اگر ہم تجھے پانے لگ جائیں

سب کے جیسی نہ بنا زلف کہ ہم سادہ نگاہ
تیرے دھوکے میں کسی اور کے شانے لگ جائیں

رات بھر روتا ہوں اتنا کہ عجب کیا اس میں
ڈھیر پھولوں کے اگر مرے سرہانے لگ جائیں

دشت کرنا ہے ہمیں شہر کے اک گوشے کو
تو چلو کام پہ ہم سارے دوانے لگ جائیں

فرحتؔ احساس اب ایسا بھی اک آہنگ کہ لوگ
سن کے اشعار ترے ناچنے گانے لگ جائیں