EN हिंदी
پیہم موج امکانی میں | شیح شیری
paiham mauj-e-imkani mein

غزل

پیہم موج امکانی میں

راجیندر منچندا بانی

;

پیہم موج امکانی میں
اگلا پاؤں نئے پانی میں

صف شفق سے مرے بستر تک
ساتوں رنگ فراوانی میں

بدن وصال آہنگ ہوا سا
قبا عجیب پریشانی میں

کیا سالم پہچان ہے اس کی
وہ کہ نہیں اپنے ثانی میں

ٹوک کے جانے کیا کہتا وہ
اس نے سنا سب بے دھیانی میں

یاد تری جیسے کہ سر شام
دھند اتر جائے پانی میں

خود سے کبھی مل لیتا ہوں میں
سناٹے میں ویرانی میں

آخر سوچا دیکھ ہی لیجے
کیا کرتا ہے وہ من مانی میں

ایک دیا آکاش میں بانیؔ
ایک چراغ سا پیشانی میں