EN हिंदी
پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے | شیح شیری
paigham zindagi ne diya maut ka mujhe

غزل

پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے

صفی لکھنوی

;

پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے
مرنے کے انتظار میں جینا پڑا مجھے

اس انقلاب کی بھی کوئی حد ہے دوستو
نا آشنا سمجھتے ہیں اب آشنا مجھے

کشتی پہنچ سکے گی یہ تا ساحل مراد
دھوکا نہ دے خدا کے لیے نا خدا مجھے

وہ طول عمر جس میں نہ ہو لطف زندگی
مل جائے مثل خضر تو کیا فائدہ مجھے

دوں تیرا ساتھ عمر رواں کس طریق سے
آنکھیں دکھا رہے ہیں ترے نقش پا مجھے

تخلیق کائنات کو سوچا کیا مگر
کچھ ابتدا ملی نہ صفیؔ انتہا مجھے