EN हिंदी
پیغام شباب آ رہا ہے | شیح شیری
paigham-e-shabab aa raha hai

غزل

پیغام شباب آ رہا ہے

کرامت علی کرامت

;

پیغام شباب آ رہا ہے
شاخوں پہ گلاب آ رہا ہے

جذبے کا پرندہ کیوں نہ تڑپے
راہوں میں سراب آ رہا ہے

ہشیار رہے خرد کی محفل
اک خانہ خراب آ رہا ہے

سرشار ہیں وقت کے کٹورے
جام مئے ناب آ رہا ہے

اس طرح شفق کو نیند آئی
احساس کو خواب آ رہا ہے

انسان ہے بے حیا کچھ ایسا
حیواں کو حجاب آ رہا ہے

تاروں کی نگاہ کیوں نہ چمکے
چہرے پہ نقاب آ رہا ہے

کورا ہے یہ حاشیہ خودی کا
ہستی کا وہ باب آ رہا ہے

انگلی میں ابھر رہی ہے سوزش
ہاتھوں میں رباب آ رہا ہے

پوچھا جو سوال آسماں سے
دھرتی سے جواب آ رہا ہے

گھلتا ہے دماغ اے کرامتؔ
سر پر جو عذاب آ رہا ہے