پیغام شباب آ رہا ہے
شاخوں پہ گلاب آ رہا ہے
جذبے کا پرندہ کیوں نہ تڑپے
راہوں میں سراب آ رہا ہے
ہشیار رہے خرد کی محفل
اک خانہ خراب آ رہا ہے
سرشار ہیں وقت کے کٹورے
جام مئے ناب آ رہا ہے
اس طرح شفق کو نیند آئی
احساس کو خواب آ رہا ہے
انسان ہے بے حیا کچھ ایسا
حیواں کو حجاب آ رہا ہے
تاروں کی نگاہ کیوں نہ چمکے
چہرے پہ نقاب آ رہا ہے
کورا ہے یہ حاشیہ خودی کا
ہستی کا وہ باب آ رہا ہے
انگلی میں ابھر رہی ہے سوزش
ہاتھوں میں رباب آ رہا ہے
پوچھا جو سوال آسماں سے
دھرتی سے جواب آ رہا ہے
گھلتا ہے دماغ اے کرامتؔ
سر پر جو عذاب آ رہا ہے
غزل
پیغام شباب آ رہا ہے
کرامت علی کرامت