پیغام رہائی دیا ہر چند قضا نے
دیکھا بھی نہ اس سمت اسیران وفا نے
کہہ دوں گا جو کی پرسش اعمال خدا نے
فرصت ہی نہ دی کشمکش بیم و رجا نے
ہے رشک ارم وادی پر خار محبت
شاید اسے سینچا ہے کسی آبلہ پا نے
یہ خفیہ نصیبی کہ ہوئے اور بھی غافل
نغمے کا اثر ہم پہ کیا شور درا نے
خاکستر دل میں تو نہ تھا ایک شرر بھی
بیکار اسے برباد کیا موج صبا نے
غزل
پیغام رہائی دیا ہر چند قضا نے
اقبال سہیل