EN हिंदी
پہنچے نہ جو مراد کو وہ مدعا ہوں میں | شیح شیری
pahunche na jo murad ko wo muddaa hun main

غزل

پہنچے نہ جو مراد کو وہ مدعا ہوں میں

رتن پنڈوروی

;

پہنچے نہ جو مراد کو وہ مدعا ہوں میں
ناکامیوں کی راہ میں خود کھو گیا ہوں میں

کہتے ہیں جس کو حسن اسی کا ہے نام عشق
دیکھو مجھے بغور کہ شان خدا ہوں میں

پردہ اٹھا کہ ہوش کی دنیا بدل گئی
حیران ہوں کہ سامنے کیا دیکھتا ہوں میں

پیوند خاک ہو کے ملیں سر بلندیاں
دشت جنوں میں بن کے بگولا اڑا ہوں میں

واعظ کے پند و وعظ کا اتنا اثر تو ہے
جو کچھ بھی آج اس نے کہا پی گیا ہوں میں

سمجھے مری حقیقت ہستی کوئی رتنؔ
عین فنا کی شکل میں عین بقا ہوں میں