EN हिंदी
پہونچا میں کوئے یار میں جب سر لیے ہوئے | شیح شیری
pahuncha main ku-e-yar mein jab sar liye hue

غزل

پہونچا میں کوئے یار میں جب سر لیے ہوئے

شمیم طارق

;

پہونچا میں کوئے یار میں جب سر لیے ہوئے
نازک بدن نکل پڑے پتھر لیے ہوئے

اے دوست زندگی کی مجھے بد دعا نہ دے
میں خاک ہو چکا ہوں مقدر لیے ہوئے

چلتی ہے روندتی ہوئے پل پل مرا وجود
ہر سانس خواہشات کا لشکر لیے ہوئے

پرچھائیوں کے دیس میں بے اصل کچھ نہیں
منظر بھی ہے یہاں پس منظر لیے ہوئے

گزری ہے روندتی ہوئی لمحوں کا قافلہ
طارقؔ کی مشت خاک ہے محشر لیے ہوئے