پہونچا میں کوئے یار میں جب سر لیے ہوئے
نازک بدن نکل پڑے پتھر لیے ہوئے
اے دوست زندگی کی مجھے بد دعا نہ دے
میں خاک ہو چکا ہوں مقدر لیے ہوئے
چلتی ہے روندتی ہوئے پل پل مرا وجود
ہر سانس خواہشات کا لشکر لیے ہوئے
پرچھائیوں کے دیس میں بے اصل کچھ نہیں
منظر بھی ہے یہاں پس منظر لیے ہوئے
گزری ہے روندتی ہوئی لمحوں کا قافلہ
طارقؔ کی مشت خاک ہے محشر لیے ہوئے
غزل
پہونچا میں کوئے یار میں جب سر لیے ہوئے
شمیم طارق