پہلو میں اک نئی سی خلش پا رہا ہوں میں
اس وقت غالباً انہیں یاد آ رہا ہوں میں
کیا چشم التفات کا مطلب سمجھ گیا
کیوں ترک آرزو کی قسم کھا رہا ہوں میں
کیا کچھ نہ تھی شکایت کوتاہیٔ نظر
اب وسعت نگاہ سے گھبرا رہا ہوں میں
اے دوست عرض غم پہ نہ یوں مسکرا کے دیکھ
اپنی نظر سے آپ گرا جا رہا ہوں میں
تو یہ سمجھ رہا ہے کہ مجبور عشق ہوں
کچھ سوچ کر فریب وفا کھا رہا ہوں میں
غزل
پہلو میں اک نئی سی خلش پا رہا ہوں میں
حبیب اشعر دہلوی