EN हिंदी
پہلو میں اک نئی سی خلش پا رہا ہوں میں | شیح شیری
pahlu mein ek nai si KHalish pa raha hun main

غزل

پہلو میں اک نئی سی خلش پا رہا ہوں میں

حبیب اشعر دہلوی

;

پہلو میں اک نئی سی خلش پا رہا ہوں میں
اس وقت غالباً انہیں یاد آ رہا ہوں میں

کیا چشم التفات کا مطلب سمجھ گیا
کیوں ترک آرزو کی قسم کھا رہا ہوں میں

کیا کچھ نہ تھی شکایت‌ کوتاہیٔ نظر
اب وسعت نگاہ سے گھبرا رہا ہوں میں

اے دوست عرض غم پہ نہ یوں مسکرا کے دیکھ
اپنی نظر سے آپ گرا جا رہا ہوں میں

تو یہ سمجھ رہا ہے کہ مجبور عشق ہوں
کچھ سوچ کر فریب وفا کھا رہا ہوں میں