پہلے وہ اچانک نظر آیا اسے دیکھا
پھر دل نے کیا اور تقاضا اسے دیکھا
وہ حسن بڑی دیر رہا سامنے میرے
پھر میں نے میاں جس طرح چاہا اسے دیکھا
وہ پل تو مری آنکھ سے جاتا ہی نہیں ہے
اک روز دریچے سے میں جھانکا اسے دیکھا
وہ حسن کے معیار پہ پورا تھا بہر طور
دیکھا ہی نہیں کوئی بھی جیسا اسے دیکھا
اک شام وہ کچھ ایسا کھلا ایسا کھلا بس
جیسا میں سمجھتا تھا سو ویسا اسے دیکھا
دریا سا سمندر میں اترنے کو تھا بیتاب
اترا اسے دیکھا جو وہ ڈوبا اسے دیکھا
چھایا ہے خیالوں میں سعیدؔ ایسا کوئی شخص
لگتا ہے کہ جس نے مجھے دیکھا اسے دیکھا
غزل
پہلے وہ اچانک نظر آیا اسے دیکھا
مبشر سعید