پہلے تھا اشک بار آج بھی ہے
دل میرا سوگوار آج بھی ہے
میں نہیں ہوں کسی بھی لائق پر
آپ کو اعتبار آج بھی ہے
جو تھا پہلے وہی ہے رشتۂ دل
پیار وہ بے شمار آج بھی ہے
عشق آنکھیں بچھائے بیٹھا ہے
آپ کا انتظار آج بھی ہے
لاکھ دنیا نے توڑنا چاہا
دل سے دل کا قرار آج بھی ہے
غزل
پہلے تھا اشک بار آج بھی ہے
سنتوش کھروڑکر