پہلے نہ اڑایا کسی بیکس کے جگر کو
پر ہم نے لگائے ہیں ترے تیر نظر کو
ہے تیر نگہ بزم عدو میں مری جانب
غصے میں چھپایا ہے محبت کی نظر کو
کیوں آتش گل باغ میں ہے تیز کہ ہم آپ
اٹھ جائیں گے اے شبنم شاداب سحر کو
دن رات کا فرق ان کی محبت میں ہے اب تو
وعدہ تو کیا شام کا اور آئے سحر کو
دل چیز ہے کیا جان بھی دوں عشق میں صابرؔ
میں نفع سمجھتا ہوں مدام ایسے ضرر کو

غزل
پہلے نہ اڑایا کسی بیکس کے جگر کو
مرزا قادر بخش صابر دہلوی