EN हिंदी
پہلے جو ہم چلے تو فقط یار تک چلے | شیح شیری
pahle jo hum chale to faqat yar tak chale

غزل

پہلے جو ہم چلے تو فقط یار تک چلے

صائم جی

;

پہلے جو ہم چلے تو فقط یار تک چلے
پھر فن سے لے کے حجرۂ فن کار تک چلے

بت خانۂ جہان سے انکار ہے مجھے
لیکن وہ کیا ہوئے تھے جو انکار تک چلے

محو خیال تیری تجلی میں کیا ہوئے
موسیٰ بھی کوہ طور کے اسرار تک چلے

رمز خدا کی رمز بھری روشنی میاں
میں چاہتا تو ہوں مرے کردار تک چلے

کچھ ربط حسن یار کی تازہ گری سے ہو
آنکھوں سے ہو کے سلسلہ اظہار تک چلے

کربل کی خاک سے جو مری خاک جا ملے
پھر خاک میری مرکز انوار تک چلے

یادوں سے بچ نکلنے کا رستہ نہیں ملا
مسجد سے لے کے حسن کے بازار تک چلے