EN हिंदी
پہلا سا وہ زور نہیں ہے میرے دکھ کی صداؤں میں | شیح شیری
pahla sa wo zor nahin hai mere dukh ki sadaon mein

غزل

پہلا سا وہ زور نہیں ہے میرے دکھ کی صداؤں میں

بشیر بدر

;

پہلا سا وہ زور نہیں ہے میرے دکھ کی صداؤں میں
شاید پانی نہیں رہا ہے اب پیاسے دریاؤں میں

جس بادل کی آس میں جوڑے کھول لیے ہیں سہاگن نے
وہ پربت سے ٹکرا کر برس چکا صحراؤں میں

جانے کب تڑپے اور چمکے سونی رات کو پھر ڈس جائے
مجھ کو ایک روپہلی ناگن بیٹھی ملی ہے گھٹاؤں میں

پتہ تو آخر پتہ تھا گنجان گھنے درختوں نے
زمیں کو تنہا چھوڑ دیا ہے اتنی تیز ہواؤں میں

دن بھر دھوپ کی طرح سے ہم چھائے رہتے ہیں دنیا پر
رات ہوئی تو سمٹ کے آ جاتے ہیں دل کی گپھاؤں میں

کھڑے ہوئے جو ساحل پر تو دل میں پلکیں بھیگ گئیں
شاید آنسو چھپے ہوئے ہوں صبح کی نرم ہواؤں میں

غزل کے مندر میں دیوانہ مورت رکھ کر چلا گیا
کون اسے پہلے پوجے گا بحث چلی دیوتاؤں میں