پہچان زندگی کی سمجھ کر میں چپ رہا
اپنے ہی پھینکتے رہے پتھر میں چپ رہا
لمحے اندھیرے دشت میں پیتے رہے مجھے
مجھ میں تھا روشنی کا سمندر میں چپ رہا
میرے لہو کے رنگ کا ایسا اثر ہوا
منصف سے بولتا رہا خنجر میں چپ رہا
بوجھل اداس رات تھی خاموش تھی ہوا
پھولوں کی آگ میں جلا بستر میں چپ رہا
اسرارؔ کیوں کسی سے میں کرتا شکایتیں
وہ آخری تھا راہ کا پتھر میں چپ رہا
غزل
پہچان زندگی کی سمجھ کر میں چپ رہا
اسرار اکبر آبادی