پہاڑ جو کھڑا ہوا تھا خواب سا خیال سا
بکھر گیا ہے راستے میں گرد ماہ و سال سا
نظر کا فرق کہئے اس کو ہجر ہے وصال سا
عروج کہہ رہے ہیں جس کو ہے وہی زوال سا
تمہارا لفظ سچ کا ساتھ دے سکا نہ دور تک
مثال جس کی دے رہے ہو ہے وہ بے مثال سا
خلوص کے ہرن کو ڈھونڈ کر ریا کے شہر میں
مرے عزیز کر رہے ہو تم عجب کمال سا
عداوتوں کی موج جس زمیں پہ بو گئی نمک
اگے گا سبزہ زار اس جگہ یہ ہے محال سا
شب وصال آئینے میں پڑ گیا شگاف کیوں؟
ہمارا دل تو صاف ہے تمہیں ہے کیوں ملال سا
کرامتؔ حزیں فرار ہو کے حال زار سے
گزشتہ عہد سے ملا تو وہ لگا ہے حال سا
غزل
پہاڑ جو کھڑا ہوا تھا خواب سا خیال سا
کرامت علی کرامت