پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نا رسائی کا
بہ خوں غلتیدۂ صد رنگ دعویٰ پارسائی کا
نہ ہو حسن تماشا دوست رسوا بے وفائی کا
بہ مہر صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا
زکات حسن دے اے جلوۂ بینش کہ مہر آسا
چراغ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا
نہ مارا جان کر بے جرم غافل تیری گردن پر
رہا مانند خون بے گنہ حق آشنائی کا
تمناۓ زباں محو سپاس بے زبانی ہے
مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا
وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہت گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا
دہان ہر بت پیغارہ جو زنجیر رسوائی
عدم تک بے وفا چرچا ہے تیری بے وفائی کا
نہ دے نالے کو اتنا طول غالبؔ مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرض ستم ہاۓ جدائی کا
جہاں مٹ جائے سعیٔ دید خضر آباد آسائش
بہ جیب ہر نگہ پنہاں ہے حاصل رہنمائی کا
بہ عجز آباد وہم مدعا تسلیم شوخی ہے
تغافل کو نہ کر مصروف تمکیں آزمائی کا
اسدؔ کا قصہ طولانی ہے لیکن مختصر یہ ہے
کہ حسرت کش رہا عرض ستم ہائے جدائی کا
ہوس گستاخیٔ آئینہ تکلیف نظر بازی
بہ جیب آرزو پنہاں ہے حاصل دل ربائی کا
نظر بازی طلسم وحشت آباد پرستاں ہے
رہا بیگانۂ تاثیر افسوں آشنائی کا
نہ پایا دردمند دوریٔ یاران یک دل نے
سواد خط پیشانی سے نسخہ مومیائی کا
اسدؔ یہ عجز و بے سامانیٔ فرعون توام ہے
جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے خدائی کا
غزل
پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نا رسائی کا
مرزا غالب