EN हिंदी
پڑھ رہے تھے وہ لب حور ہمارا قصہ | شیح شیری
paDh rahe the wo lab-e-hur hamara qissa

غزل

پڑھ رہے تھے وہ لب حور ہمارا قصہ

فیض خلیل آبادی

;

پڑھ رہے تھے وہ لب حور ہمارا قصہ
یوں ہی تھوڑی ہوا مشہور ہمارا قصہ

صرف اک عیب نکالا تھا غلط فہمی نے
ہو گیا ہم سے بہت دور ہمارا قصہ

آگیں یادیں تری ہاتھ میں مرہم لے کر
جب بھی بننے لگا ناسور ہمارا قصہ

ہم وہ جگنوں ہیں کسی وقت کسی سے سن کر
رو پڑی تھی شب دیجور ہمارا قصہ

خامشی نے انہیں ہونٹوں پہ کیا اپنا قیام
یاد جن جن کو تھا بھرپور ہمارا قصہ

فیضؔ جو پیڑ لگایا ہے ادب کا ہم نے
جاری رکھے گا بدستور ہمارا قصہ