پڑھ کے قاصد خط مرا اس بد زباں نے کیا کہا
کیا کہا پھر کہہ بت نامہرباں نے کیا کہا
غیر سے ملنا تمہارا سن کے گو ہم چپ رہے
پر سنا ہوگا کہ تم کو اک جہاں نے کیا کہا
گالیوں کی جھاڑ باندھی قصد سرگوشی میں رات
کیا کہا چاہے تھا میں اس بد گماں نے کیا کہا
سب خراج مصر دے کر تھا زلیخا کو یہ سوچ
مول یوسف سے پسر کا کارواں نے کیا کہا
آہ اے مرغ چمن کچھ تو بھی واقف ہے کہ صبح
گل نے کیا پوچھا تھا ہنس کر باغباں نے کیا کہا
پھر لہو ٹپکے ہے پیارے آج کچھ باتوں کے بیچ
سچ کہو لب سے تمہارے رنگ پاں نے کیا کہا
قائمؔ اس کوچہ سے شب غمگیں نہ آتا تھا یوں ہی
کیا کہوں تجھ سے کہ اس کو پاسباں نے کیا کہا
غزل
پڑھ کے قاصد خط مرا اس بد زباں نے کیا کہا
قائم چاندپوری