پچھتا رہے ہیں درد کے رشتوں کو توڑ کر
سر پھوڑتے ہیں اپنے ہی دیوار و در سے لوگ
پتھر اچھال اچھال کے مرہم کے نام پر
کرتے رہے مذاق مرے زخم میرے لوگ
کب ٹوٹے دیکھیے مرے خوابوں کا سلسلہ
اب تو گھروں کو لوٹ رہے ہیں سفر سے لوگ
سیلاب جنگ زلزلے طوفان آندھیاں
سنتے رہے کہانیاں بوڑھے شجر سے لوگ
کیا خوب شہرتوں کی ہوس ہے خود اپنے نام
لکھنے لگے کتابوں میں اب آب زر سے لوگ
غزل
پچھتا رہے ہیں درد کے رشتوں کو توڑ کر (ردیف .. گ)
آفتاب عارف