پچاس سالوں میں دو اک برس کا رشتہ تھا
مری وفا سے تمہاری ہوس کا رشتہ تھا
ہمارا پیار تو تھا چاند اور چکورے سا
تمہارا عشق ہی گل سے مگس کا رشتہ تھا
رہ حیات کا میں ایسا اک مسافر تھا
کہ جیسے شہر کی سڑکوں سے بس کا رشتہ تھا
سنا ہے میں نے مساجد کے ان مناروں سے
منادروں کے ان اونچے کلس کا رشتہ تھا
ترس رہے ہیں جو گلشن میں آشیانوں کو
کل انہیں مرغ چمن کا قفس سے رشتہ تھا
میں سوچتا ہوں بھلا میرے جسد خاکی سے
اے اشکؔ کیا مرے تار نفس کا رشتہ تھا
غزل
پچاس سالوں میں دو اک برس کا رشتہ تھا
رضا اشک