EN हिंदी
پچاس سالوں میں دو اک برس کا رشتہ تھا | شیح شیری
pachas salon mein do ek baras ka rishta tha

غزل

پچاس سالوں میں دو اک برس کا رشتہ تھا

رضا اشک

;

پچاس سالوں میں دو اک برس کا رشتہ تھا
مری وفا سے تمہاری ہوس کا رشتہ تھا

ہمارا پیار تو تھا چاند اور چکورے سا
تمہارا عشق ہی گل سے مگس کا رشتہ تھا

رہ حیات کا میں ایسا اک مسافر تھا
کہ جیسے شہر کی سڑکوں سے بس کا رشتہ تھا

سنا ہے میں نے مساجد کے ان مناروں سے
منادروں کے ان اونچے کلس کا رشتہ تھا

ترس رہے ہیں جو گلشن میں آشیانوں کو
کل انہیں مرغ چمن کا قفس سے رشتہ تھا

میں سوچتا ہوں بھلا میرے جسد خاکی سے
اے اشکؔ کیا مرے تار نفس کا رشتہ تھا