پایاب موج اٹھی تو سر سے گزر گئی
اک سرو قد جوان کی دستار اتر گئی
کرنے لگا تھا غرق سمندر جہان کو
طوفاں ہی موجزن تھا جہاں تک نظر گئی
اس تیرگی میں برق کی شوخی عجیب تھی
آباد وہ ہوا جسے ویران کر گئی
سوئے بدن کے بحر میں جاگی تھی خوں کی لہر
جب چڑھ کے سر تک آئی تو جانے کدھر گئی
صحن چمن میں دل کے لہو کی ہر ایک بوند
پتے کو پھول شاخ کو تلوار کر گئی
ناصح نے کوئے یار کا رستہ بھلا دیا
اچھا ہوا کہ حسرت دیدار مر گئی

غزل
پایاب موج اٹھی تو سر سے گزر گئی
منظور عارف