پایا جو تجھے تو کھو گئے ہم
بیدار ہوئے تو سو گئے ہم
دل میں لئے غیر کو گئے ہم
ایک آئے عدم سے دو گئے ہم
محشر میں لگی بجھانے آئے شیخ
سیدھے تسنیم کو گئے ہم
سمجھے نہ وہ زخم و داغ دل ہے
لے کر نئے پھول دو گئے ہم
بھر کر دم نزع اک دم سرد
جنت کی ہوا میں سو گئے ہم
اب دشت نور و عشق جو ہو
اس راہ میں کانٹے بو گئے ہم
کوثر کا تھا ذکر حوض مے پر
ہم کہہ کے گرے کہ لو گئے ہم
اللہ بچائے دخت رز سے
یہ آئی کہ مست ہو گئے ہم
اب کشمکش حساب کیسی
کچھ حشر میں آ کے کھو گئے ہم
سو کعبہ دین تھے جلوہ افروز
خم خانہ میں آج جو گئے ہم
میخانے میں جب کبھی ہم آئے
داڑھی رو کر بھگو گئے ہم
اس حج میں وہ بت بھی ساتھ ہوگا
یہ سچ ہے ریاضؔ تو گئے ہم

غزل
پایا جو تجھے تو کھو گئے ہم
ریاضؔ خیرآبادی