پاوے کس طرح کوئی کس کو ہے مقدور ہمیں
لے گیا عشق ترا کھینچ بہت دور ہمیں
صبح کی رات تو رو رو کے اب آ اے بے مہر
روز روشن کو دکھا مت شب دیجور ہمیں
ربط کو چاہئے یک نوع کی جنسیت یاں
چشم بیمار اسے ہے دل رنجور ہمیں
بات گر کیجے تو ہے بندہ نوازی ورنہ
دیکھنا ہی ہے فقط آپ کا منظور ہمیں
الفت اس شوخ کی چھوتی ہے کوئی جیتے جی
رکھو اس پند سے اے ناصحو معذور ہمیں
پی ہے مے رات کو یا جاگے ہو تم کچھ تو ہے
آنکھیں آتی ہیں نظر آج تو مخمور ہمیں
یاں سے بیدارؔ گیا وہ مہ تاباں شاید
نظر آتا ہے یہ گھر آج تو بے نور ہمیں
غزل
پاوے کس طرح کوئی کس کو ہے مقدور ہمیں
میر محمدی بیدار