EN हिंदी
پاتے رہے یہ فیض تری بے رخی سے ہم | شیح شیری
pate rahe ye faiz teri be-ruKHi se hum

غزل

پاتے رہے یہ فیض تری بے رخی سے ہم

سرتاج عالم عابدی

;

پاتے رہے یہ فیض تری بے رخی سے ہم
گویا کہ دور ہوتے رہے زندگی سے ہم

غم دائمی ہے اور خوشی عارضی سی چیز
اس واسطے قریب نہیں ہیں خوشی سے ہم

محسوس تم سے مل کے ہوا ہم کو پہلی بار
ہیں ہمکنار آج مجسم خوشی سے ہم

اک دور تھا لکھا تھا مرے دل پہ تیرا نام
ہیں آج تیری بزم میں اک اجنبی سے ہم

جلنے سے آشیاں کے چراغاں سا ہو گیا
محروم ہو چکے تھے نئی روشنی سے ہم

ہے زندگی کی شام نہیں ہم نوا کوئی
ہر سمت دیکھتے ہیں عجب بیکسی سے ہم

تخریب کائنات ہے انسان دشمنی
سرتاجؔ کہہ رہے ہیں یہ ہر آدمی سے ہم